Add To collaction

20-Feb-2022 لیکھنی کی غزل

غزل

محسوس کیا ہے تجھے دیکھا تو نہیں ہے 
پھولوں میں کہیں تیرا ہی جلوہ تو نہیں ہے

ہر بات نکلتی ہے زباں سے تری کڑوی 
دانتوں میں ترے نیم کا پتا تو نہیں ہے 

پھر کس نے بچھائے ہیں مری راہ میں کانٹے
اس شہر میں کوئی مرا اپنا تو نہیں ہے  

پردہ سا پڑا رہتا ہے آئینے پہ اکثر 
اس میں کہیں حالات کا چہرہ تو نہیں ہے 

پھر شیخ و برہمن میں چلیں امن کی باتیں
اک جنگ کا پھر اور ارادہ تو نہیں ہے 

ہر بات عداوت کی بھلا دیتے ہو پل میں
تم میں کوئی معصوم سا بچہ  تو نہیں ہے

اس کی تو ہر اک بات کا دشمن ہے زمانہ 
وہ آدمی' کو ثر' کہیں سچا تو نہیں ہے 


   10
15 Comments

Shaqeel

21-Feb-2022 11:23 AM

Good

Reply

Aein meem kausar

21-Feb-2022 01:05 PM

بہت بہت شکریہ جناب

Reply

Amir

20-Feb-2022 08:48 PM

Bahut khoob

Reply

Aein meem kausar

20-Feb-2022 11:06 PM

بہت بہت شکریہ آپ کا

Reply

Aein meem kausar

21-Feb-2022 01:05 PM

بہت بہت نوازش

Reply

Zafar Siddiqui

20-Feb-2022 08:20 PM

Umdah

Reply

Aein meem kausar

20-Feb-2022 11:07 PM

بہت بہت نوازش

Reply