پھولوں میں کہیں تیرا ہی جلوہ تو نہیں ہے
ہر بات نکلتی ہے زباں سے تری کڑوی
دانتوں میں ترے نیم کا پتا تو نہیں ہے
پھر کس نے بچھائے ہیں مری راہ میں کانٹے
اس شہر میں کوئی مرا اپنا تو نہیں ہے
پردہ سا پڑا رہتا ہے آئینے پہ اکثر
اس میں کہیں حالات کا چہرہ تو نہیں ہے
پھر شیخ و برہمن میں چلیں امن کی باتیں
اک جنگ کا پھر اور ارادہ تو نہیں ہے
ہر بات عداوت کی بھلا دیتے ہو پل میں
تم میں کوئی معصوم سا بچہ تو نہیں ہے
اس کی تو ہر اک بات کا دشمن ہے زمانہ
وہ آدمی' کو ثر' کہیں سچا تو نہیں ہے
Shaqeel
21-Feb-2022 11:23 AM
Good
Reply
Aein meem kausar
21-Feb-2022 01:05 PM
بہت بہت شکریہ جناب
Reply
Amir
20-Feb-2022 08:48 PM
Bahut khoob
Reply
Aein meem kausar
20-Feb-2022 11:06 PM
بہت بہت شکریہ آپ کا
Reply
Aein meem kausar
21-Feb-2022 01:05 PM
بہت بہت نوازش
Reply
Zafar Siddiqui
20-Feb-2022 08:20 PM
Umdah
Reply
Aein meem kausar
20-Feb-2022 11:07 PM
بہت بہت نوازش
Reply